تضاد [ Urdu Blog ]
تضاد
ہائے ہائے۔۔۔۔۔ خالہ بلقیس آتے ہی
اپنے تخت پوش پر براجمان ہو گئیں۔ اور وہیں سے آ واز لگائی۔۔۔۔۔ او فارہ۔۔۔۔۔ کہاں
مر گئی۔۔۔۔۔ مجھے ذرا پانی تو پلاؤ۔ فارہ پانی لائی اور ماں کے پاس ہی بیٹھ گئی۔
”کیا بات ہے اماں بہت تھکی تھکی اور پریشان لگ رہی ہو؟“۔۔۔۔۔ اس نے فکر مندی سے
پوچھا۔ ”کچھ نہ پوچھو بیٹی زمانہ بدل گیا ہے اب۔ اب وقت پہلے جیسا نہ رہا جب لوگوں
میں انسانیت اور دوسروں کے کرب کا احساس ہوتا تھا۔“ انہوں نے گلاس رکھتے ہوئے کہا۔
”پر امی آپ تو خالہ کے ہاں گئی تھیں نا۔ ان کی بیٹی کا رشتہ کرانے۔“
”ہاں
فارہ۔۔۔۔۔ مگر جیسے ہی انہوں نے سنا کہ وہ طلاق یافتہ ہے تو وہی ہوا۔۔۔۔۔ صاف جواب
دے دیا کہ ہمیں طلاق یافتہ بہو نہیں چاہیے۔“ خالہ نے تاسف سے ہاتھ ملتے ہوئے کہا۔
”اب نجانے اس یتیم کا کیا ہو گا۔۔۔۔۔ پہلی شادی ٹوٹنے کے بعد جتنے بھی رشتے آئے سب
نے طلاق کا سن کر منہ ہی پھیر لیا۔“ ”یہ تو برا ہوا اس کے ساتھ۔۔۔۔۔ اب سلیم بھائی
نے ہی اپنی پسند کی شادی کرنے کی خاطر باجی کو طلاق دی تو اس میں ان کا کیا قصور
ہے“۔ فارہ نے کہا۔ یہی تو بیٹا۔۔۔۔۔ لوگوں میں خوفِ خدا نام کی کوئی چیز نہیں رہی۔
حالانکہ سب کو اس سلیم کے کرتوت بتائے اور کہا کہ ہماری بٹیا بے قصور ہے مگر شاید
کوئی بھی ا ٓنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کو تیار نہیں۔ ہمارے مذہب میں تو عورت کو
دوسری شادی کی مکمل آزادی ہے مگر اس سماج میں مذہب اور اخلاقیات صرف کتابوں میں
قید کر لی گئی ہیں۔ میری بہن تو اس کے غم میں گھل کر بالکل آدھی ہو گئی ہے۔ پتہ
نہیں زمانہ کس طرف چل پڑا ہے۔ اب اس میں اس یتیم کا کیا قصور کہ وہ طلاق یافتہ
ہے۔۔۔۔۔ خالہ بلقیس نے زمانے کو دو چار صلواتیں سناتے ہوئے کہا۔
فارہ کی آنکھوں
میں چمک ابھری۔۔۔۔۔ اس نے خوشی سے چیختے ہوئے کہا۔۔۔۔۔ ”امی!!!!!!!! مگر رشتہ تو گھر میں
ہی موجود ہے۔۔۔۔۔ باہر تلاش کرنے کی ضرورت نہیں۔“ ”کیا مطلب۔۔۔۔۔؟؟“ خالہ بلقیس نے
اپنی بیٹی کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ ”امی۔۔۔۔۔ بھائی۔۔۔۔۔ بھائی تو گھر میں ہی
موجود ہے!!! میں تو اب تک اس لیے خاموش تھی کہ شاید خالہ باجی کی شادی اپنی مرضی
سے کروانا چاہتی ہیں۔“
اس کی خوشی دیدنی تھی گویا اس نے مسئلہ کشمیر حل کر لیا ہو۔
خالہ بلقیس یوں اچھلی جیسے انہیں کرنٹ لگ گیا ہو۔۔۔۔۔“چل ہٹ۔۔۔۔۔ دفعہ ہو یہاں
سے۔۔۔۔۔ میرے بیٹے کے لیے کیا طلاق یافتہ لڑکی ہی رہ گئی ہے۔۔۔۔۔!!! میں تو اپنے
بیٹے کے لیے چاند سی بہو لاؤں گی۔“ انہوں نے بڑے ارمانوں سے کہا۔۔۔۔۔!!!
دیکھنے کا
زاویہ بدل جائے تو دوسروں کے لیے پسند کردہ چیز خود کے لیے زحمت لگتی ہے۔ ہمارے
سماج میں نہ صرف مذہب اور اخلاقیات کتابوں میں قید ہیں بلکہ قول و فعل کی یکجائی
کا درس بھی تحریروں میں ہی محفوظ ہے۔ کیونکہ وہ درس اتنا بیش قیمت ہے کہ لوگ اس کو
تحریروں سے آزاد کر کے اپنی عملی زندگی میں لانے کا خطرہ مول نہیں لیتے۔ رشتوں اور
انسانیت کی ڈور سے بندھی یہ دنیا۔۔۔۔۔ جس کی حقیقت محض لفظی وابستگی کے سوا کچھ
نہیں۔
Comments
Post a Comment
Your feedback is appreciated!