رب نوں یار منیے
غموں کی لال آندھی اور مصائب کی کالی گھٹا جب ابن آدم کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہے تو یہ کمزور نفس اپنے نحیف یقین سے پکارتا ھے عرش پہ رہنے والے کو۔ صدا دیتا ہے آسمان کو۔ کہ نکالے مجھے اس بھنور سے۔مگر اس کی پکار ختم ہونے سے پھلے ہی خدا کی رحمت جوش میں آتی ہے۔ اور اسے مشکلات کے گرداب سے نکال کر رحمت کی بارش تلے لے آتی ہے ۔ تب اسے اپنی صدا کی بے یقینی پر ندامت ہونے لگتی ہے۔ ندامت ہونے لگتی ہے اپنے فعل پر ۔ خدا کو آسمانوں میں ڈھوندنے پر کہ
دل کے آءینے میں ہے تصویریار
جب ذرا گردن جھکاءی دیکھ لی
مگر ہم خدا کو یار نہیں مانتے۔ خدا مانتے ہیں۔ آزماءش دینے والا خدا ۔ آزماءش سے نکالنے والا خدا۔
محبت کرنے والا خدا تو شاید ہمارے گمان میں ہے ہی نہیں
خدا سے مانگنے تو سب جاتے ہیں۔ خدا کو مانگنے کوئی نہیں آتا ۔۔۔۔۔۔ کوئی اس کا متمنی نہیں۔ سب متمنی ہیں تو اپنی خواہشات کے پورا ہونے کے
مگر جب خواہشات کے منہ زور گھوڑے کو لگام لگتی ہے اکتاہت کی ۔ کہ افراط ہر چیز کی باعث_ جھنجلاہٹ ہے تو ہر شے کے حصول کے بعد اسے رب سے ملنے کا
خیال آتا ہے۔ چناچہ وہ ڈھوندنے نکلتا ہے خدا کو مسجدوں میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آسمانوں میں۔۔۔۔۔۔۔۔صحراوں میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مندروں میں
۔۔۔۔۔۔۔شاید نہیں معلوم کہ خدا تو اس کے اندر ہی موجود ہے۔ بس اپنے
نفس کو مارنے کی دیر ہے۔ اور جسں کسی کو بھی ملا خدا وہ اوصاف کریمہ کا حامل تصوف کی
بلندی کو جا پہنچا۔۔۔۔۔ پھر یہی کہتا رہا ساری حیاتی۔
یار کو ہم نے جا بجا دیکھا
عقل کی کسوٹی پر ہر بات کو پرکھنے والے تو عشق کی شدت کو اس حد تک مان سکتے ہیں کہ اپنے نفس کو مار کر خدا کی قربت نصیب ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔ اور پھر جگ بھر میں وہی نظر آتا ہے۔۔۔۔
تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا
مگرعشق حقیقی کو سمجھنے کے دعویدار شاید انا الحق کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔۔
ڈبویا مجھ کو ہونے نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رب اندر ہی موجود ہے۔ بس نفس کی دبیز تہ کو ہٹانے کی دیر ہے۔۔۔۔۔۔ مگر ہم کیوں ہٹائیں یہ تہ کہ زندگی وقف ہے ابھی خواہشات کی تکمیل کے لیے۔ خدا کو برھاپے کے سہارے کے لیے اٹھا رکھا ہے
Great job Ayesha!! Absolutely Beautiful!! :)
ReplyDeletesuperb..! loving it.<3
ReplyDeleteIts a masterpiece (Y)..no words....keep it up ayesha :)
ReplyDeletehats off to the artwork (y)
ReplyDelete