موت کا رقص....................................By Ayesha Shahid
موت کا رقص
”مجھے امید ہے میری ڈگری اس ملک سے دہشتگردی ختم کرنے کے کام آئے گی۔ کیونکہ پولیس میں کام کرنا میرا دیرینہ خواب ہے۔“
ہاتھوں میں ڈگری لیے۔ کراچی یونیوڑسٹی سے نکلتے ہوئے وہ ہنوز محوِ خیال تھا۔ ہر خاص و عام کی مانند اس کے بھی کچھ خواب تھے۔ فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے ایک آوارہ شاپر اس کے قدموں کی رکاوٹ بن گیا۔ وہ جھکا، شاپر اٹھا کر قریبی کوڑے دان میں پھینکتے ہوئے سوچنے لگا۔
میں بھی اسی طرح پولیس سے گندی بھیڑیں نکال دوں گا
گلی کا موڑ مڑا تو اسے فائرنگ کی آواز آئی۔ چیخ و پکار اسے خیالات کی دنیا سے نکال کر حقیقت میں کھینچ لائی۔ گلی میں دو موٹر سائیکل سوار اندھا دھند فائرنگ کرتے ہوئے گزر رہے تھے۔ گویا یہ اُن کا روز مرہ کا معمول ہو۔
اُس نے جھک کر اپنی جان بچانے کی کوشش کی۔
مگر۔۔۔۔۔بدقسمتی سے ایک گولی اس کی زندگی میں داخل ہو چکی تھی۔ گولی لگی تو وہ زمین پر گرتا چلا گیا۔ اس کے خواب اس کی ڈگری کے کاغذوں کی مانند بکھرتے چلے گئے۔
”کیونکہ۔۔۔۔۔سامنے موت محور رقص تھی“
وہ چیختا ہے۔۔۔۔۔پکارتا ہے مدد کے لیے۔ اسے گرتا دیکھ کر کچھ لوگ تو اس کے پاس آئے مگر کوئی اس کی مدد کو تیار نہ تھا۔ کیونکہ اب خود مشکل میں پڑنے کا خوف انسانیت کے جذبے کو معدوم کر چکا ہے۔
پھر اسے آواز آئی۔۔۔۔۔
”ہٹو۔۔۔۔۔سب پیچھے ہٹو۔۔۔۔“
”جلدی کرو سب۔۔۔۔۔پیچھے ہو جاؤ۔۔۔۔۔“
”موت کا رقص تھم جاتا ہے۔“
آنکھوں میں امید کے جگنو لیے وہ منتظر ہے مدد کے لیے۔۔۔۔۔ کہ شاید مدد آ پہنچتی ہے۔ مگر آنے والی ایمبولینس نہیں ٹی وی رپورٹر تھی جس نے آتے ہی انسانیت کو پسِ پشت ڈال کر اپنی ڈیوٹی نبھانا مناسب سمجھا۔ کیونکہ تھی تو وہ بھی ایک تنخواہ دار ہی۔
آتے ہی اس نے بولنا شروع کر دیا:۔
”ناظرین ایک اہم خبر۔۔۔۔۔!!
حکومت کی ایک اور نااہلی۔۔۔۔۔!!
ٹارگٹ کلنگ کا ایک اور واقعہ۔۔۔۔۔!!“
”سب سے اہم بات آپ کو بتاتے چلیں اس واقعے کی خبر سب سے پہلے ہمارے ٹی وی چینل نے آپ کو دی ہے!
موت کا رقص پھر سے شروع ہو جاتا ہے
“
ٹی وی رپورٹر کی نگاہ اس پر پڑی تو امید پھر سے زندہ ہو گئی۔ وہ اُس کی طرف دیکھتا ہے۔۔۔۔۔ جینے کی آرزو لیے۔۔۔۔۔ بمشکل پکارتا ہے۔۔۔۔۔
مجھے بچالو۔۔۔۔۔ میں ابھی مرنا نہیں چاہتا۔۔۔۔۔ میں جینا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔خدارا میری مدد کرو۔
موت کا رقص ایک بار پھر تھم جاتا ہے
شاید موت بھی اس کی زندگی نہیں لینا چاہتی موت کو بھی آرزو ہے کہ شاید کوئی اس کی زندگی بچالے۔
ٹی وی رپورٹر کی آنکھوں میں لمحہ بھر کے لیے انسانیت چمکتی ہے۔ مگر زندگی کی تلخیاں اور محدود تنخواہ انسانیت کے آڑے آ جاتی ہے۔ وہ منہ پھیر لیتی ہے۔۔۔۔۔ کیونکہ آج کی دنیا میں کامیاب وہی ہے جو موقع سے فائدہ اٹھاتا ہے۔
اس کا سر ایک طرف ڈھلک جاتا ہے۔ موت اپنے ساتھ اس کی زندگی لے کر جا چکی ہے۔ ہوا رُک جاتی ہے۔ہرسو سکوت چھا جاتا ہے۔ آنکھوں میں جینے کی خواہش لیے وہ دم توڑ دیتا ہے۔
کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔۔۔۔۔
شام کے ڈھلتے ہی سورج اس کی زندگی لیے غروب ہو گیا۔ میڈیا والے اپنے اپنے چینلز کو تازہ خبر سے مزین کر کے جا چکے۔ تماش بین گھروں کو لوٹنے لگے۔
تب کہیں دور سے پولیس سائرن کی آواز گونجی!!!۔۔۔۔۔
Its awsome...throwing light on the hard realities of our society..(Y)....deep, thought provoking and emotional as well :( well written ayesha :) (Y)
ReplyDeletegreat writing indeed....
ReplyDeleteshowing realities every Pakistani facing now a day
well written (Y)
ReplyDeleteI want to join this blog..going to get admitted in KEMU.. I dont know how to join it..really.. please guide me..
ReplyDelete