Urdu Blog: Tum Kya Jaano
Rabia Ramzan, 3rd Year MBBS
"تم کیا جانو کہ بعض دکھ کبھی نہ جانے کے لئے انسان کی زندگی میں آتے ہیں، وہ کسی وفادار دوست کی مانند ہوتے ہیں جو آخری سانس تک ساتھ نبھاتے ہیں۔۔۔تم کیا جانو کہ بعض غم دامن میں اٹکےان کانٹوں کی طرح ہوتے ہیں جن سے اگر جان چھڑانے کی کوشش کی جاۓ تو ہاتھ لہو لہو ہو جاتے ہیں اور دامن تار تار، لیکن وہ کانٹے پھر بھی وہیں کے وہیں رہتے ہیں، اور اگر ان کی موجودگی میں جینے کی کوشش کی جاۓ، تو ان کی چبھن لحظہ بہ لحظہ خون کے آنسو رلاتی ہے۔۔۔تم کیا جانو کہ بعض دکھوں سے نجات کا کوئ راستہ نہیں ہوتا سواۓ اس کے کہ انسان ان پر صبر کر لے اور ان دامن کے کانٹوں کی چبھن سمیت جینا سیکھ لے۔۔۔تم کیا جانو کہ بعض غم یادداشت کی سلیٹ پر ایسی سیاہی سے لکھے جاتے ہیں کہ وقت کی دھول بھی انہیں ماند نہیں پڑنے دیتی۔۔۔تم کیا جانو کہ بعض دکھ کسی سخت جان پودے کی طرح اپنی جڑیں ہمارے وجود کی سرحدوں کے پار لے جا کر ہماری روح کو جکڑ لیتے ہیں۔۔۔تم کیا جانو کہ بعض غم انسان کو جیتے جی مار ڈالتے ہیں اور اس کے اندر ویرانیوں کے سوا کچھ نہیں رہ جاتا، اس کی سب مسکراہٹیں سطحی اور سب قہقہے کھوکھلے ہو جاتے ہیں۔۔۔تم کیا جانو کہ بعض دکھ روح کو یوں تھکا دیتے ہیں کہ صدیاں بھی اس تھکاوٹ کے اثرات نہیں مٹا پاتیں۔۔۔تم کیا جانو کہ بعض غم انسان کو یوں توڑ دیتے ہیں کہ وہ چاہ کر بھی اپنے وجود کی دھجیوں کو نہیں سمیٹ پاتا۔۔۔تم کیا جانو کہ بعض دکھوں سے لڑتے لڑتے انسان خود کو ہار دیتا ہے اور پھر بھی فاتح نہیں کہلا پاتا۔۔۔"
بولتے بولتے میرا سانس پھول چکا تھا۔ میں جانتا تھا کہ میرے لہجے میں تلخی گھل چکی تھی، لیکن میں نے اس سے کچھ نہ چھپایا، جو دل کے قریب ہوں ان سے بھی بھلا کچھ پوشیدہ رکھا جاتا ہے۔ میں اب اس کے جواب کا منتظر تھا۔
"ٹھیک کہتے ہو تم۔۔۔میں کیا جانوں یہ سب۔۔۔مجھے تو بس یہ معلوم ہے کہ شہ رگ سے بھی زیادہ قریب بسنے والا مہربان رب، اپنے بندوں کو ان کی اوقات سے زیادہ سکھ تو دے سکتا ہے، لیکن ان کی برداشت سے بڑھ کر دکھ ہرگز نہیں دیتا۔۔۔ستر ماؤں سے بڑھ کر تم سے محبت کرنے والی وہ ذات تمہیں کوئ ایسا دکھ دے گی ہی نہیں جسے تم جھیل نہ پاؤ۔"
"تو پھر مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ کچھ دکھ میری برداشت سے بڑھ کر ہیں۔"
"اس لئے کیونکہ تم اپنی برداشت کی حد سے واقف نہیں ہو۔ تم خود سے مکمل طور پر آشنا نہیں ہو، لیکن جو رب ہے نا، وہ تمہیں تم سے بھی زیادہ جانتا ہے۔"
ہمیشہ کی طرح وہ اس بار بھی مجھے لاجواب کر چکا تھا۔.
بولتے بولتے میرا سانس پھول چکا تھا۔ میں جانتا تھا کہ میرے لہجے میں تلخی گھل چکی تھی، لیکن میں نے اس سے کچھ نہ چھپایا، جو دل کے قریب ہوں ان سے بھی بھلا کچھ پوشیدہ رکھا جاتا ہے۔ میں اب اس کے جواب کا منتظر تھا۔
"ٹھیک کہتے ہو تم۔۔۔میں کیا جانوں یہ سب۔۔۔مجھے تو بس یہ معلوم ہے کہ شہ رگ سے بھی زیادہ قریب بسنے والا مہربان رب، اپنے بندوں کو ان کی اوقات سے زیادہ سکھ تو دے سکتا ہے، لیکن ان کی برداشت سے بڑھ کر دکھ ہرگز نہیں دیتا۔۔۔ستر ماؤں سے بڑھ کر تم سے محبت کرنے والی وہ ذات تمہیں کوئ ایسا دکھ دے گی ہی نہیں جسے تم جھیل نہ پاؤ۔"
"تو پھر مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ کچھ دکھ میری برداشت سے بڑھ کر ہیں۔"
"اس لئے کیونکہ تم اپنی برداشت کی حد سے واقف نہیں ہو۔ تم خود سے مکمل طور پر آشنا نہیں ہو، لیکن جو رب ہے نا، وہ تمہیں تم سے بھی زیادہ جانتا ہے۔"
ہمیشہ کی طرح وہ اس بار بھی مجھے لاجواب کر چکا تھا۔.
Buhat Umda ...!!!!
ReplyDelete