لہور ،لہور اے
Usama Qamar 1st Year MBBS اندرون شہر کی تنگ گلیوں میں،چائے کے ہوٹلوں پر ،ایک بے نتیجہ سیاسی گفتگو کے بعد ، لاہوری بزرگ بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ جب بھاٹی گیٹ کی ایک بڑھیا کو خواب میں جنت کی زیارت ہوئی اور پھر فرشتوں نے پوچھا کہ بی اماں! جنت کیسی لگی تو ماں جی نے اک ٹھنڈی آہ بھری اور بولیں: "پتر ! جنت تے بڑی سوہنی اے پر ۔۔۔۔۔۔۔۔ " پر کیا ماں جی؟؟ "پر لہور ،لہور اے ۔" دسمبر کا مہینہ تھا ۔ لاہور شہر میں میرا پہلا دن ۔۔۔۔۔ ، بلکہ پہلی رات تھی ۔ بس داتا دربار کے سامنے رکی ۔ دس سال سکول ،دو سال کالج اور دو عدد ایم-ڈی-کیٹ کا بوجھ اٹھائے میں بڑے اکرام سے بس سے اتارا گیا تھا ۔ سامان ابا جی سے اٹھوایا کہ آخر ہم نے اپنے ضلع میں انٹری ٹیسٹ ٹاپ کیا تھا لہذا اتنی عزت تو ہمارا حق بنتا تھا ۔ ابھی بس سے اترے ہی تھے کہ ایک رکشے والا قریب آیا ۔ یہ وہ وقت تھا جب لاہور میں ہمیں پیش آنے والے حادثات کی ابتدا ہوئی تھی۔ ہم بچپن سے استانیوں سے سنتے آے تھے کہ بیٹا ! اردو میں ' ڑ ' سے کوئی لفظ شروع نہیں ہوتا ۔ لہذا ہمیں " ڑ سے پہاڑ " ہی پڑھایا